!مائیں متوجہ ہوں

کیسے ہیں آپ سب؟

یہاں بہت اچھی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اللہ کرے کہ یہ صرف باتیں ہی نہ رہیں بلکہ عمل بن جائے- بچوں کو کارٹون بہت پسند ہوتے ہیں- کیونکہ بچوں کو سمجھ نہیں ہوتی- اب اگر آگ کا گرم سرخ کوئلہ بهی بچوں کے اگےآ  ے گا تو وه اسے بھی پکڑ لیں گے کیونکہ ناسمجھ ہوتے ہیں انہیں اچھے برے کا پتا نہیں ہوتا- یہ ذمہ داری بنتی ہے ماں کی
 ماں ہی وه واحد ہستی ہے جو بچوں کے برے بهلے کا سوچ سکتی ہے اگرچہ کہ اس میں اتنی صلاحیت ہو- ماں کے اندر اگر اچھے برے کی سمجھ  نہیں ہوگی تو وه اپنے بچوں کو کبهی نہیں سمجھا سکتی- بچوں کی تربیت کے لیے ماں کو ایک مکمل بہترین  کردار میں ڈهلنا ہوتا ہے- آ ج کل کی مائیں خود جان چھڑانے کے لیے بچوں کو بیہ ٹی وی کے آگے بیهٹا دیتی ہیں ریموٹ

پکڑا کر چلی جاتی ہیں اب بچوں کی مرضی ہے وه جو مرضی دیکھیں-

 کارٹون کی جہاں تک بات ہے تو یہ باقاعدہ سوچا سمجھا زہر ہے جو آہستہ آہستہ ہمارے بچوں کے اندر اترا جا رہا ہے- میں نے خود کئی گهروں میں بچوں کو دیکھاہے کہ وہ ڈورےمون کے  پیچھے  دیوانے ہو رہے ہیں اور مائیں خوش “اسے ڈورےمون بہت پسند ہے”میں حیران- ڈرتے  ڈرتے سمجھایا بهی کچھ ماوں کو کہ یہ چیز اچھی نہیں ہے اسکے یہ نقصانات ہیں لیکن بهیئی مائیں بهی اپنی آسانی دیکھتی ہیں بڑے  جواز  ہیں انکے پاس کارٹون دیکھنے کے- 
اللہ تعالٰی انہیں عقل سلیم عطا فرمائے- ماں کی تربیت پر میں اس لیے بات کر رہی ہوں کہ میں بهی ایک ماں ہوں- جب پہلی مرتبہ ماں بنی تھی تو کم عمر تهی اتنا شعور نہیں تها جتنا کہ آج کل کی بچیوں میں ہے خیر پہلی مرتبہ ماں بننے کے بعد بہت ہی خود سے سمجھدار بهی ہوگئے اور اپنے طور پہ عقلمند  بهی- بچوں کی تربیت کے لیے پہلے ماں اور باپ کو اپنے شوق ختم کرنے پڑے ہیں جو بھی بچوں کے لیے بہتر نہ ہوں- ہماری سب سے وہ  سے بڑی  خرابی  جو ہے ، وہ کیبل ہے، یہ زہر ناسور  ہے. اس -اس سے بڑھ  کر کوئی  زہر نہیں  لیکن لوگوں کو  سمجھ کیوں نہیں آتی

الحمدللہ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں نے  اپنی اتنی زندگی میں کبھی اپنے گھر میں کیبل نہیں آنے دی . اور اب  الحمدللہ  چھے سال سے  ہمارے  گھر سے ٹی وی بھی نکل گیا، نہ کبھی کمی محسوس ہوئی نہ ہی  دلچسپی 
 بھی گهر سے نکل گیا- میرے بچے بڑے ہیں اور دو چھوٹے بهی لیکن الحمدللہ کسی کو ٹی وی کی کمی محسوس نہیں ہوتی-کوئی کارٹون نہیں – میری سب ماوں سے التجا ہے کہ اپنے گھروں سے کیبل  نکال دیں- برائ کی جڑ ختم ہوگی تو انشاءاللہ

بہتری آئے گی- ہمارے معاشرے میں ہمارے گھروں میں ہمارے دلوں میں-اللہ پاک ہم سب کے بچوں کو برے لوگوں سے برے دوستوں سے بری جگہ سے برے کاموں سے برے وقت سے برے احباب سے اور بری تقدیر سے محفوظ رکھے آمین

 تحریر: ام عبدالحی

 

2 thoughts on “!مائیں متوجہ ہوں

  • میں آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق نہیں کیونکے اک وقت آتا ہے جب بچے جماتے کنٹرول سے بھر ہوتے ہیں اور اک دم اتنی ساری temptations ka سامنا ہوتا ہے اور انہیں سمجھ نہیں آتا کیا کریں اور وہ دلدل میں دھنستے جاتے ھیں۔. I agree that too much TV or TV being used as a babysitter is very dangerous. We need to spend time with our children but we have to teach them to live in the world with the temptations around them and learning to live a pious life with those still around. So throwing Tv out of the house isn’t the solution but rather despite having TV not using it as babysitting tool

    • بہت اچھی بات ہے سو فیصد متفق ہونا بھی ضروری نہیں، ظاہر ہے ہر انسان الگ الگ سوچ رکھتا ہے. واقعی جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے، لیکن یہ کام ہم کوشش سے کر سکتے ہیں…
      بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دے کے ، انہیں اپنے ساتھ رکھیں، ان سے باتیں کریں، انہیں بچپن سے اچھے اور برے کی پہنچان دیں، عمر کے ساتھ ساتھ سمجھائیں .
      جہاں تک ٹی وی کی بات ہے ت کے ٹی وی و ہم سبکو پتا ہے کے وہ چھپا دشمن ہے، یہ سب کے گھروں میں ببانگ دھل گھوم رہا ہے. کون روک سکتا ہے اسے اس میں کیا ہے سب جانتے ہیں… یہ کسی ایک کی نہیں بلکے سب گھرانوں کی جنگ ہے. اور اسکو ہمیں اپنے طور پر لڑنا چاہئیے . اسکے بہت سرے طر یقے لیکن یہ سب میں آپ پر چھوڑتی ہوں.
      سوچیے ، غور کیجیے کے انفرادی طور پر آپ اپنے گھر میں کیا کر سکتے ہیں.

      انشا الله اگلے بلاگ میں آپکو بہت ساری ایسی باتیں ملیں گی جو ہمارے بچوں کے لی اچھی ثابت ہونگی .
      الله ہمیں ، ہمارے بچوں کو اور ہمارے بہن بھائیوں کو ہر برائی سے محفوظ رکھے. امین

      ام عبدحیی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *